مغرب میں کھانا کھانے کی فی کس اوسط شرح کم ہوتی جارہی ہے ۔ وہاں کھانا اس قدر سستا ہے کہ ایک اوسط امریکی گھرانہ اپنی کل آمدن کا محض 11 فیصد کھانے پر خرچ کرتا ہے۔
ادھریورپی یونین میں بھی صارفین کے اپنے کھانے پر صرف ساڑھے 14 فیصد پیسے خرچ ہوتے ہیں جبکہ ان ممالک میں ہر شخص سالانہ 100 کلو کھانا کچرے میں پھینکتا ہے۔
امریکا و یورپی یونین میں غذا کی دستیابی کی یومیہ اوسط 3500 کلو کیلوریز فی کس ہےمگر وہاں کی بوڑھی ہوتی آبادیاں اب 2100 کلو کیلوریز سے زیادہ کھانا نہیں کھا پاتیں۔ اس کے نتیجے میں 1400 کلو کیلوریز یعنی 40 فیصد خوراک کچرے کی نظر ہوجاتی ہے۔
تحقیق سے پتہ چلا ہےکہ عالمی سطح پر ہر سال انسانی خوراک کے لیے اگایا جانے والا ایک تہائی کھانا یعنی تقریباً1 .3 ارب ٹن خوراک ضائع ہوجاتی ہے اور سب سے زیادہ غذا یورپی یونین اور شمالی امریکا میں ضائع ہوتی ہے۔
جنوب صحرائے افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے کم کھانا ضائع ہوتا ہے۔
وہاں خوراک کے ضائع ہونے کی فی کس شرح 6 کلو سے 11 کلو سالانہ ہے۔
امیر ممالک اتنا زیادہ کھانا ضائع کیوںکرتے ہیں؟اس کی دو وجوہات یہ ہو سکتی ہیں کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک اگاتے ہیں اور اسے بہت سستے داموں بیچتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہان کا گھروں میں کھانا پکانے کا رجحان کم ہوگیا ہے۔ امریکا میں تقریباً 50 فیصد کھانا گھروں سے باہر کھایا جاتا ہے، جو پلیٹ میں ضائع ہونے والی غذا کی ایک بڑی وجہ ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران متعدد تحقیقات سے اس مسئلے کی شدت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملی ہے۔اور پتہ یہ چلاکہ ر زق کے ضیاع سےجہاں ماحول و معیشت پرشدید اثرات مرتب ہورہےہیں،وہیں بے شمار مہلک وبائی امراض بھی جنم لے رہے ہیں۔
غذا کی کھپت کا تعلق قیمت سے ہوتا ہے۔مغربی ممالک میں رزق کے ضیاع کو کم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہاں خوراک کی قیمتیں بڑھا دی جائیں۔ لیکن مغربی ممالک کی حکومتیں یہ راستہ اختیار کرنے پر رضامند نہیں۔(روزنامہ جنگ کی اشاعت یکم فروری 2016سے ماخوذ)